EN हिंदी
اپنے دل کا حال نہ کہنا کیسا لگتا ہے | شیح شیری
apne dil ka haal na kahna kaisa lagta hai

غزل

اپنے دل کا حال نہ کہنا کیسا لگتا ہے

خالد احمد

;

اپنے دل کا حال نہ کہنا کیسا لگتا ہے
تم کو اپنا چپ چپ رہنا کیسا لگتا ہے

دکھ کی بوندیں کیا تم کو بھی کھاتی رہتی ہیں
آہستہ آہستہ ڈھہنا کیسا لگتا ہے

درد بھری راتیں جس دم ہلکورے دیتی ہیں
دریاؤں کے رخ پر بہنا کیسا لگتا ہے

میں تو اپنی دھن میں چکرایا سا پھرتا ہوں
تم کو اپنی موج میں رہنا کیسا لگتا ہے

کیا تم بھی ساحل کی صورت کٹتے رہتے ہو
پل پل غم کی لہریں سہنا کیسا لگتا ہے

کیا شامیں تم کو بھی شب بھر بے کل رکھتی ہیں
تم سورج ہو تم کو لہنا کیسا لگتا ہے

کیا تم بھی گلیوں میں گھر کی وسعت پاتے ہو
تم کو گھر سے باہر رہنا کیسا لگتا ہے

کم آہنگ سروں میں تم کیا گاتے رہتے ہو
کچھ بھی نہ سننا کچھ بھی نہ کہنا کیسا لگتا ہے

درد تو سانسوں میں بستے ہیں کون دکھائے تمہیں
پھولوں پر خوشبو کا گہنہ کیسا لگتا ہے