اپنے دم سے گزر اوقات نہیں کرتا میں
کیسے کہہ دوں کے غلط بات نہیں کرتا میں
شام ہوتی ہے میرے گھر میں سحر ہوتی ہے
رات بھی ہوتی ہے پر رات نہیں کرتا میں
آج پھر خود سے خفا ہوں تو یہی کرتا ہوں
آج پھر خود سے کوئی بات نہیں کرتا میں
فقط اک بات ہی میں بات بڑھی ہے اتنی
سوچتا ہوں کے ملاقات نہیں کرتا میں
کیا برا ہے جو مجھے لوگ برا ہی جانیں
کام کرتے ہیں جو حضرات نہیں کرتا میں

غزل
اپنے دم سے گزر اوقات نہیں کرتا میں
ترکش پردیپ