اپنے چمن پہ ابر یہ کیسا برس گیا
ہر قطرہ زہر بن کے فضاؤں میں بس گیا
سود و زیاں کی فکر کا کس کو رہا دماغ
مدت ہوئی کہ حوصلۂ پیش و پس گیا
اب جاگتے ہیں اپنی ہی آہٹ سے قافلے
راہ طلب سے شیوۂ بانگ جرس گیا
اک سیل رنگ و نور سے جل تھل ہے کائنات
کیسا یہ تیرے جلووں کا بادل برس گیا
دکھلائیں ہم شکستگیٔ بال و پر کسے
کہتے ہیں لوگ موسم قید قفس گیا
چارہ گرو یہ زہر اتارو تو بات ہے
تاریکیوں کا ناگ زمانے کو ڈس گیا
نقش قدم کا بھی کوئی ملتا نہیں سراغ
چپکے سے دل میں آ کے مرے کون بس گیا
ہر لمحہ زندگی سے عبارت تھا جن دنوں
کیا کیا نہ ہم سے لے کے وہ دور ہوس گیا
حرمتؔ یہ دل ہے اپنی تباہی پہ جس کو ناز
وہ پھول ہے جو کھلنے سے پہلے بکس گیا
غزل
اپنے چمن پہ ابر یہ کیسا برس گیا
حرمت الااکرام