EN हिंदी
اپنے اپنے لہو کی اداسی لیے ساری گلیوں سے بچے پلٹ آئیں گے | شیح شیری
apne apne lahu ki udasi liye sari galiyon se bachche palaT aaenge

غزل

اپنے اپنے لہو کی اداسی لیے ساری گلیوں سے بچے پلٹ آئیں گے

غلام حسین ساجد

;

اپنے اپنے لہو کی اداسی لیے ساری گلیوں سے بچے پلٹ آئیں گے
دھوپ کی گرم چادر سمٹتے ہی پھر یہ سنہری پرندے پلٹ آئیں گے

شام آئی ہے اور ساعتوں کے قدم پانیوں کی روانی میں رکنے لگے
کون کہتا ہے ان بادلوں سے پرے آسماں پر ستارے پلٹ آئیں گے

یہ دریچے اسی طرح روشن رہیں اور گلابوں کی خوشبو سلامت رہے
پھر اسی چھاؤں میں سانس لینے کو ہم اپنے اپنے گھروں سے پلٹ آئیں گے

ہم مسافر ہیں گرد سفر ہیں مگر اے شب ہجر ہم کوئی بچے نہیں
جو ابھی آنسوؤں میں نہا کر گئے اور ابھی مسکراتے پلٹ آئیں گے

پھر انہی زرد پیڑوں کے ننگے بدن شعلۂ نخل سے راکھ ہونے لگے
میں تو سمجھا تھا موسم بدلتے ہی پھر ڈالیوں پر وہ پتے پلٹ آئیں گے

یہ سفینے جو اک لہر کے واسطے اپنے اپنے بہاؤ میں بہنے لگے
اک ادھوری مسافت کی تصویر میں پھر کوئی رنگ بھرنے پلٹ آئیں گے

ایک دن یاد آؤں گا ساجدؔ اسے عمر کی بیکرانی میں میں بھی کہیں
شام آئے گی اور میرے آنگن میں بھی ان درختوں کے سایے پلٹ آئیں گے