EN हिंदी
اپنے اندر بھی ہم نوائی نہیں | شیح شیری
apne andar bhi ham-nawai nahin

غزل

اپنے اندر بھی ہم نوائی نہیں

عابد ودود

;

اپنے اندر بھی ہم نوائی نہیں
عقل کی روح تک رسائی نہیں

سودا بازی اگر نہ ہو اس میں
نیکی کرنے میں کچھ برائی نہیں

ہر ادا سے ادا نکلتی ہے
اتنی آسان آشنائی نہیں

ہم سے قائم ہے تیرے حسن کی شان
یہ مری جان! خود ستائی نہیں

کتنا تنہا ہوں دشت غربت میں
میرا بھائی بھی میرا بھائی نہیں

کسی عنوان سے کبھی عابدؔ
زندگی ہم کو راس آئی نہیں