اپنا شہکار ابھی اے مرے بت گر نہ بنا
دل دھڑکتا ہے مرا تو مجھے پتھر نہ بنا
قید آوارگیٔ جاں ہی بہت ہے مجھ کو
ایک دیوار مری روح کے اندر نہ بنا
آتی جاتی ہوئی سانسوں پہ لکیریں مت کھینچ
میری تصویر مجھے پاس بٹھا کر نہ بنا
وہ گھروندے ترے بچپن میں بھی ڈھ دیتی تھی
اب تو وہ کھیل کی باتیں بھی نہیں گھر نہ بنا
اک ترا دھیان جو ٹوٹے گا بکھر جاؤں گا
مجھ کو اک لہر پہ بہنے دے سمندر نہ بنا

غزل
اپنا شہکار ابھی اے مرے بت گر نہ بنا
مصحف اقبال توصیفی