اپنا محاسبہ کبھی کرنے نہیں دیا
خود بینیوں نے ہم کو سنورنے نہیں دیا
حالات نے اگرچہ سجھائی گداگری
میری انا نے مجھ کو بکھرنے نہیں دیا
طوفاں سے کھیلنے کا رہا شوق عمر بھر
ساحل پہ جس نے مجھ کو اترنے نہیں دیا
المایوں میں قید رہا اپنا سارا علم
قلب و نظر کو ہم نے نکھرنے نہیں دیا
دنیا سے کب کا اٹھ گیا ہوتا میں اے صنم
لیکن ترے خیال نے مرنے نہیں دیا
منزل تو میرے سامنے آتی رہی عبیدؔ
جوش جنوں نے مجھ کو ٹھہرنے نہیں دیا
غزل
اپنا محاسبہ کبھی کرنے نہیں دیا
عبید الرحمان