اپنا کردار نبھایا ہے سمندر میں نے
ایک قطرے کو بنایا ہے سمندر میں نے
اپنی لہروں سے ذرا کہہ دے کہ ہشیار رہیں
دل میں طوفان چھپایا ہے سمندر میں نے
جس کو مد مست ہوائیں بھی بجھا نہ پائیں
دیپ اک ایسا جلایا ہے سمندر میں نے
تجھ کو پرواہ نہیں وعدے کی تو اپنے نہ سہی
پیار کا دل میں چھپایا ہے سمندر میں نے
تیری دنیا کو اجالوں سے سجانے کے لیے
دل چراغوں سا جلایا ہے سمندر میں نے
آزمانے کو فقط ظرف مری آنکھوں کا
آئنہ تجھ کو بنایا ہے سمندر میں نے
غزل
اپنا کردار نبھایا ہے سمندر میں نے
جیوتی آزاد کھتری