EN हिंदी
اپنا جب بوجھ مری جان اٹھانا پڑ جائے | شیح شیری
apna jab bojh meri jaan uThana paD jae

غزل

اپنا جب بوجھ مری جان اٹھانا پڑ جائے

جمال احسانی

;

اپنا جب بوجھ مری جان اٹھانا پڑ جائے
دوسروں کا نہ کچھ احسان اٹھانا پڑ جائے

اس قدر عیش محبت پہ نہ ہو خوش کہ تجھے
دوسرے عشق میں نقصان اٹھانا پڑ جائے

اس سرائے میں نہ پھیلائیے اجزائے حیات
جانے کس وقت یہ سامان اٹھانا پڑ جائے

یوں نہ ہو بول پڑوں میں تری خاموشی پر
اور تجھے بزم سے مہمان اٹھانا پڑ جائے

پھر بدل جائے نہ اس وعدۂ امروز سے تو
اور ہمیں دوسرا طوفان اٹھانا پڑ جائے

کیا تماشا ہو سر کوچۂ دل دار اگر
میرے جیسا کوئی نادان اٹھانا پڑ جائے

میں تو مر جاؤں اسی وقت اگر مجھ کو جمالؔ
عشق سے ہاتھ کسی آن اٹھانا پڑ جائے