EN हिंदी
اپنا ہر عضو چشم بینا ہے | شیح شیری
apna har uzw chashm-e-bina hai

غزل

اپنا ہر عضو چشم بینا ہے

گویا فقیر محمد

;

اپنا ہر عضو چشم بینا ہے
اس قدر انتظار تیرا ہے

جو ہے محبوب تیرا شیدا ہے
یوسف آگے تری زلیخا ہے

ایک مہ رو بغل میں سوتا ہے
آسماں پر دماغ اپنا ہے

خاک میں جو ملا دیا مجھ کو
آسماں نے زمیں کو سونپا ہے

کس نے چہرے سے بال سرکائے
شام کو صبح آشکارا ہے

استخواں تک کبھی گزر نہ کیا
میرے حق میں ہما بھی عنقا ہے

تیرے قدموں پہ کیوں نہ قیس گرے
نقش پا رشک روئے لیلیٰ ہے

ان دنوں اے مسیح دم تجھ پر
دم نکلتا ہے دم نکلتا ہے

تولوں اس سیم تن کو نظروں میں
یہ مرا جسم زار کانٹا ہے

حسن خوباں ہلال و بدر کی طرح
کبھی کم ہے کبھی زیادہ ہے

اس بیاباں میں لے گئی وحشت
ماہ نو جس کا ایک کانٹا ہے

دل میں رہتا ہے اس کمر کا خیال
کیا یہ عنقا کا آشیانا ہے

آؤ آنکھوں میں ایک دم ٹھہرو
پتلیوں کا یہاں تماشا ہے

کف پا بھی نہ ہم کو دکھلائے
برہمن ہاتھ دیکھ جاتا ہے

یار نام خدا ہے کشتی میں
ناخدا آج پار بیڑا ہے

تیرا نقش قدم زمیں پہ نہیں
آسماں پر کوئی ستارا ہے

ہم سے تم دشمنی لگے کرنے
دوستی اب نصیب اعدا ہے

کہہ رہے ہیں شب فراق میں ہم
آج کس کو امید فردا ہے

خار چبھ کر جو ٹوٹتا ہے کبھی
آبلہ پھوٹ پھوٹ روتا ہے

آنکھیں نرگس ہیں رخ ہے گل قد سرو
تو تو اے گل چمن سراپا ہے

کام پوشاک سے نہیں ہم کو
عیب پوشی ہمارا شیوہ ہے

دے سلیماں کی اس پری کو قسم
اس طرح شیشے میں اتارا ہے

زلف نے نقد دل کئے ہیں جمع
اب تو یہ سانپ کوڑیالا ہے

پہنچے ہیں گور کے کنارے ہم
ہم سے اب تک تمہیں کنارا ہے

جرم گویاؔ کے بخشوا دینا
یا محمد فقیر تیرا ہے