اپنا ہر اک اصول مجھے ہارنا پڑا
تھی جیت ہی فضول مجھے ہارنا پڑا
تدبیر میری ایک نہ مانی بہار نے
پت جھڑ کے آگے پھول مجھے ہارنا پڑا
اعزاز اعتماد ہے اس کا دیا ہوا
گرچہ نہ تھا قبول مجھے ہارنا پڑا
اس کی خوشی تھی باعث فتح حیات نو
جب وہ ہوا ملول مجھے ہارنا پڑا
جب تک ہوا تھی صاف تھا میدان ہاتھ میں
آنکھوں میں آئی دھول مجھے ہارنا پڑا
میرے بھی کیا نصیب کہ وقت دعا محیطؔ
شعروں کا تھا نزول مجھے ہارنا پڑا

غزل
اپنا ہر اک اصول مجھے ہارنا پڑا
محیط اسماعیل