EN हिंदी
اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا | شیح شیری
apna har andaz aankhon ko tar-o-taza laga

غزل

اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا

زہرا نگاہ

;

اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا
کتنے دن کے بعد مجھ کو آئینہ اچھا لگا

سارہ آرائش کا ساماں میز پر سوتا رہا
اور چہرہ جگمگاتا جاگتا ہنستا لگا

ملگجے کپڑوں پہ اس دن کس غضب کی آب تھی
سارے دن کا کام اس دن کس قدر ہلکا لگا

چال پر پھر سے نمایاں تھا دلآویزی کا زعم
جس کو واپس آتے آتے کس قدر عرصہ لگا

میں تو اپنے آپ کو اس دن بہت اچھی لگی
وہ جو تھک کر دیر سے آیا اسے کیسا لگا