اپنا گریہ کس کے کانوں تک جاتا ہے
گاہے گاہے اپنی جانب شک جاتا ہے
پکا رستہ کچی سڑک اور پھر پگڈنڈی
جیسے کوئی چلتے چلتے تھک جاتا ہے
یاروں اور پیاروں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی
آتا ہے اور سارا شہر مہک جاتا ہے
عمر کٹی ہے شریانوں کے کٹتے کٹتے
مولا کتنا گہرا یا ناوک جاتا ہے
کوئی تو ہے جو اس ہنستے بستے منظر میں
چپکے سے آواز میں آنسو رکھ جاتا ہے
چپ رہتے ہیں لوگ رضا کی چادر اوڑھے
جیسے برف سے جھیل کا سینہ ڈھک جاتا ہے
غزل
اپنا گریہ کس کے کانوں تک جاتا ہے
سعود عثمانی