EN हिंदी
اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے | شیح شیری
apna ghar chhoD ke hum log wahan tak pahunche

غزل

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے

اقبال عظیم

;

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبح فردا کی کرن بھی نہ جہاں تک پہنچے

میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے

بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا
اس سے پہلے کہ یہی بات زباں تک پہنچے

تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے

آج پندار تمنا کا فسوں ٹوٹ گیا
چند کم ظرف گلے نوک زباں تک پہنچے