اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبح فردا کی کرن بھی نہ جہاں تک پہنچے
میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے
بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا
اس سے پہلے کہ یہی بات زباں تک پہنچے
تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے
آج پندار تمنا کا فسوں ٹوٹ گیا
چند کم ظرف گلے نوک زباں تک پہنچے
غزل
اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
اقبال عظیم