EN हिंदी
اپنا گھر بازار میں کیوں رکھ دیا | شیح شیری
apna ghar bazar mein kyun rakh diya

غزل

اپنا گھر بازار میں کیوں رکھ دیا

آصفہ نشاط

;

اپنا گھر بازار میں کیوں رکھ دیا
واقعہ اخبار میں کیوں رکھ دیا

خواب کی اپنی بھی اک توقیر ہے
دیدۂ بے دار میں کیوں رکھ دیا

کھیل میں خانہ بدلنے کے لئے
اپنا مہرہ ہار میں کیوں رکھ دیا

سر بچانے تک تو شاید ٹھیک ہو
خوف یہ دستار میں کیوں رکھ دیا

نیند نہ آنا یہ راتوں کو نشاطؔ
دل کو اس آزار میں کیوں رکھ دیا