اپنا دنیا سے سفر ٹھہرا ہے
گوشۂ قبر میں گھر ٹھہرا ہے
ہجر میں زیست کو کہتے ہیں موت
نفع کا نام ضرر ٹھہرا ہے
دل مرا اس کا طرفدار ہوا
جو ادھر تھا وہ ادھر ٹھہرا ہے
اور اندھیر ہوا چاہتا ہے
سرمہ منظور نظر ٹھہرا ہے
لکھ ہوا و ہوس وصل اے دل
قاصد باد صبا ٹھہرا ہے
دیکھیں دونوں میں ہوا کس کی بندھے
ابر اے دیدۂ تر ٹھہرا ہے
گھر جو اس مہ کا بنا ہے اے مہرؔ
دل مرا ماہ نگر ٹھہرا ہے
غزل
اپنا دنیا سے سفر ٹھہرا ہے
سید آغا علی مہر