اپنا اپنا دکھ بتلانا ہوتا ہے
مٹی سے تصویر میں آنا ہوتا ہے
میری صبح ذرا کچھ دیر سے ہوتی ہے
مجھے کسی کو خواب سنانا ہوتا ہے
نئے نئے منظر کا حصہ بنتا ہوں
جیسے جیسے جسم پرانا ہوتا ہے
اک چڑیا مجھ سے بھی پہلے اٹھتی ہے
جیسے اس کو دفتر جانا ہوتا ہے
یار کتابیں کتنی جھوٹی ہوتی ہیں
ان میں کوئی اور زمانہ ہوتا ہے
گھر کے اندر اتنی گلیاں پڑتی ہیں
کبھی کبھار ہی باہر جانا ہوتا ہے
غزل
اپنا اپنا دکھ بتلانا ہوتا ہے
الیاس بابر اعوان