EN हिंदी
آنکھیں دکھائیں غیر کو میری خطا کے ساتھ | شیح شیری
aankhen dikhain ghair ko meri KHata ke sath

غزل

آنکھیں دکھائیں غیر کو میری خطا کے ساتھ

انور دہلوی

;

آنکھیں دکھائیں غیر کو میری خطا کے ساتھ
مطلب ادا وہ کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ

شوخی نگہ کے ساتھ تغافل جفا کے ساتھ
عشاق پر ہجوم بلا ہے بلا کے ساتھ

آخر ہوا نہ ضبط شب وصل مدعی
نالہ نکل گیا مری لب سے دعا کے ساتھ

تیرے ستم سے مجھ کو ملا منصب کلیم
اک وجہ گفتگو نکل آئی خدا کے ساتھ

تیرا حجاب اٹھتے ہی آیہ وہ ناگہاں
دشمن کے پاؤں کھل گئے بند قبا کے ساتھ

میں کیا کہ دشمنوں کی بھی قسمت الٹ گئی
ترچھی ادائیں اور تیری بانکی ادا کے ساتھ

راہ طلب میں شوق کی منظور ہے نمود
مٹتے قدم قدم پہ چلے رہنما کے ساتھ

یا رب غلط ہو فہم کج اندیش کا گماں
کچھ کہہ رہا ہے ان سے عدو التجا کے ساتھ

دیتے نہیں کسی کو پتہ اپنے حال کا
بیگانہ بن کے چلتے ہیں ہر آشنا کے ساتھ

مے بے طلب ملی تو ہوئی یار کی طلب
بندوں کے ناز بھی ہیں نرالے خدا کے ساتھ

جوش قلق میں دیکھیے کیا مانگتا ہوں میں
یاروں کے دم نکلتے ہیں میری دعا کے ساتھ

گھر سے مجھے نکالتے رہئے پر اس طرح
گہ مدعی کے ساتھ گہے مدعا کے ساتھ

کیوں شوق میں گرائیے ساتھ اپنے شان عشق
اغماض بھی ضرور ہے کچھ التجا کے ساتھ

کہتا ہوں یہ نصیب نہ دشمن کو ہو فراق
آ میں وہ کہتے جاتے ہیں میری دعا کے ساتھ

لیلیٰ کا نام زندہ ہے اب تک جہاں میں
تم بھی نباہ دو کسی اہل وفا کے ساتھ

پھرتے ہی اس کی آنکھ کے وابستہ تر ہوا
میں دل کے ساتھ دل نگہ فتنہ زا کے ساتھ

ہم عالم خیال میں کچھ بھی نہ خوش ہوئے
ہے رشک غیر یاد لب جاں فضا کے ساتھ

اب تو بڑا خیال تیری رنجشوں کا ہے
محشر میں دیکھ لیں گے خدا کی خدا کے ساتھ

کہتا ہے ڈر کے ہاتھ وفا سے اٹھا لیا
دشمن کی بات بن گئی میری دعا کے ساتھ

آتا ہے بوئے دوست میں کافر بسا ہوا
قاصد بھی اک رقیب ہے اپنا صبا کے ساتھ

کیا ڈھونڈھتے ہو دہر میں انورؔ جمال دوست
چندے پھرو چلو کسی مرد خدا کے ساتھ