نظر آئے کیا مجھ سے فانی کی صورت
کہ پنہاں ہوں درد نہانی کی صورت
بنا ہوں وہ میں ناتوانی کی صورت
غضب ہی کھچی بے نشانی کی صورت
خموشی جو ہے اقتضائے طبیعت
تو ان کو ملی بے دہانی کی صورت
نظر آئے کیا جلوۂ حسن باقی
کہ پردہ ہے دنیائے فانی کی صورت
تم اور ذکر اغیار پر چپ رہو گے
کہے دیتی ہے بے دہانی کی صورت
ہمارے گلے پر تو چلتی دکھاؤ
کہاں تیغ میں ہے روانی کی صورت
قیام اپنا اس کوچہ میں پا بگل ہے
ملے خاک میں ہم تو پانی کی صورت
گداز دل تشنہ کا ماں غضب ہے
وہ خنجر نہ بہہ جائے پانی کی صورت
برابر ہے یہاں بود و نابود اپنی
نشاں ہے مرا بے نشانی کی صورت
عرق شرم سے خاکساری میں ہوں میں
ہوا خاک بھی میں تو پانی کی صورت
جو پوچھو تو اس چشم کا دیکھنا ہے
وہ ہے گردش آسمانی کی صورت
ڈبویا مجھے آب میں شرم سے وہ
کھڑے ہیں مرے سر پہ پانی کی صورت
نمود اپنی واقع میں کچھ بھی نہیں ہے
یہاں خواب ہے زندگانی کی صورت
وہ دل رونمائی میں لیتے ہیں پہلے
دکھاتے ہیں جب جاں ستانی کی صورت
مجھے کشتہ دیکھا تو قاتل نے پوچھا
یقیں ہے یہاں بد گمانی کی صورت
پڑے مر کے مٹنے کو ہم ٹھوکروں میں
مگر کٹ گئی زندگانی کی صورت
زباں پر ہے قاصد کی اپنی رسائی
ہوا ہوں پیام زبانی کی صورت
مجسم ہی موہوم آنے میں ان کے
نظر آتی ہے زندگانی کی صورت
ترے وعدے پر زیست ہے مرگ اپنی
بہت ہی بڑھی ناتوانی کی صورت
وہ اس شکل سے میری بالیں پہ آئے
کہ اک آفت آسمانی کی صورت
نظر بن کے پھرتی ہے آنکھوں میں اپنی
کسی عالم نوجوانی کی صورت
نہ ہو رشک تو کیجیے وہاں مدح دشمن
کہ ہے یار کی راز دانی کی صورت
مجھے دیکھو اور اس کے وعدے پہ جینا
یہ ہے زندۂ جاودانی کی صورت
وہاں بد گمانی کی تعریف کیا ہو
یقیں ہو جہاں بد گمانی کی صورت
نظر سوز وہ رخ وہ انکار بے حد
مگر ہیں وہ اک لن ترانی کی صورت
دکھاتے ہیں وہ رخ سے یوں ناز پنہاں
کہ الفاظ جیسے معانی کی صورت
یہاں کیا سمائی دم تیغ قاتل
کہ نظروں میں ہے سخت جانی کی صورت
جو نقش فنا ہوں تو وہ دل پہ انورؔ
کھنچی اور اک بد گمانی کی صورت
غزل
نظر آئے کیا مجھ سے فانی کی صورت
انور دہلوی