اشک بیتاب و نگہ بے باک و چشم تر خراب
چشم بینا سے اگر دیکھو تو گھر کا گھر خراب
گریہ بے تاثیر و فریاد دل مضطرب خراب
کار عشق و عاشقی ناقص تمام اکثر خراب
اک ہمارا نام جو پہنچے نہ تیری بزم تک
اک ہماری خاک ہے جو پھرتی ہے در در خراب
ہے ادب سے نطق بند اب کیا بیاں ہو مدعا
پہلے ہی یہاں ہو چکا گفتار کا دفتر خراب
دل خراب اور سب ہوا و حرص دل بیکار ہے
ہے فضائے دہر میں حال بت و بت گر خراب
جان ہی جاتی ہے گفتار شکر آلود پر
بوالہوس سے نیت عاشق ہے کچھ بڑھ کر خراب
شب عدو کے ساتھ دن کو مجھ سے چھپتے پھرتے ہو
الغرض پھرتے ہو یوں ہی رات بھر دن بھر خراب
دل خرابات مغاں سے ہم اٹھا سکتے نہیں
ہو گئے اس خاکداں میں چار دن رہ کر خراب
پھوڑنا سر کا ہی آ ٹھہرا تو لاکھوں سنگ ہیں
کیجیے کیوں آستان یار کا پتھر خراب
جو مقابل میں بلا آئے وہ موجود اس میں ہے
دل ہوا اپنا صفا سے آئینہ بن کر خراب
اک صنم کے ہاتھ بک جاتا نہ پھرتا در بدر
بت فروشی سے ہوا ہے کس قدر آزر خراب
لطف ساقی عام تھا پر وائے بخت عندلیب
جام گل بیکار نکلا ساغر عبہر خراب
میرے دل میں ایک دم آتے نہیں مثل مراد
ہو گئے اغیار کی آنکھوں میں تم رہ کر خراب
تم کسی وعدہ سے پھر جاؤ کہ ہو جاؤں تمام
ہو اگر پھرنے میں میرے حلق پر خنجر خراب
منحرف ہم دیکھتے ہیں کچھ نگاہ تیز تیز
کس رگ جاں سے ہوا ہے یہ سر نشتر خراب
آرزوئے قتل بر آئی تو کیا بر آئی خاک
کچھ یہاں قسمت بری کچھ وہاں دم خنجر خراب
یوں خرابات مغاں بھی ہے خراب روزگار
لیکن اس سے بھی ہے کچھ تیرا دل انورؔ خراب
غزل
اشک بیتاب و نگہ بے باک و چشم تر خراب
انور دہلوی