انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں
بس پیار ہماری قیمت ہے مل جائے تو ہم بک جاتے ہیں
سکوں کی چمک پہ گرتے ہوئے دیکھا ہے شیخ و برہمن کو
پھر میرے کھنڈر کی قیمت کیا جب دیر و حرم بک جاتے ہیں
کیا شرم خودی کیا پاس حیا غربت کی اندھیری راتوں میں
کتنے ہی بتان زہرہ جبیں بادیدۂ نم بک جاتے ہیں
یہ حرص و ہوا کی منزل ہے اے راہروو ہشیار ذرا
جب ہاتھ روپہلے بڑھتے ہیں رہبر کے قدم بک جاتے ہیں
وہ صاحب علم و حکمت ہوں یا پیکر عقل و دانائی
اک میرے دل ناداں کے سوا سب تیری قسم بک جاتے ہیں
یہ شہر ہے شہر زرداری کیا ہوگا شمیمؔ انجام ترا
یاں ذہن خریدا جاتا ہے یاں اہل قلم بک جاتے ہیں
غزل
انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں
شمیم کرہانی