انجمؔ اگر نہیں در دل دار تک پہنچ
ہو جائے کاش روزن دیوار تک پہنچ
جاتا ہے کوئی کعبے کو اور کوئی سوئے دیر
مجھ رند کی ہے خانۂ خمار تک پہنچ
نالے کی نارسائی نے عاجز کیا ہمیں
ہو جاتی ورنہ آپ کی سرکار تک پہنچ
یہ کیا ہے بیٹھا باتیں بناتا ہے دور سے
عیسیٰ اگر بنا ہے تو بیمار تک پہنچ
لے جائے گی بہا کے کبھی سیل چشم تر
انجمؔ کبھی تو ہوگی در یار تک پہنچ
غزل
انجمؔ اگر نہیں در دل دار تک پہنچ
مرزا آسمان جاہ انجم