انجام یہ ہوا ہے دل بے قرار کا
تھمتا نہیں ہے پانوں ہمارے غبار کا
پہلے کیا خیال نہ گل کا نہ خار کا
اب دکھ رہا ہے پانوں نسیم بہار کا
پیہم دیے وہ رنج کہ انساں بنا دیا
منت پذیر ہوں ستم روزگار کا
اس کو خزاں کے آنے کا کیا رنج کیا قلق
روتے کٹا ہو جس کو زمانہ بہار کا
مخفی ہے اس میں راز بقائے حیات عشق
کیا پوچھتے ہو حال دل بے قرار کا
مجبوریاں ستم ہیں وگرنہ خدا کی شان
میں اور یوں گزار دوں موسم بہار کا
غافل نگاہ ہوش سے رنگ چمن کو دیکھ
پروردۂ خزاں ہے زمانہ بہار کا
نکلا ہے دم رواںؔ کا تمنا کے ساتھ ساتھ
اللہ رے زور نالۂ بے اختیار کا
غزل
انجام یہ ہوا ہے دل بے قرار کا
جگت موہن لال رواںؔ