EN हिंदी
انجام انتہائے سفر دیکھتے چلیں | شیح شیری
anjam-e-intiha-e-safar dekhte chalen

غزل

انجام انتہائے سفر دیکھتے چلیں

رہبر جونپوری

;

انجام انتہائے سفر دیکھتے چلیں
اب گاؤں آ گئے ہیں تو گھر دیکھتے چلیں

گزرے نہیں ہیں ہم بھی کبھی اس دیار سے
کیسا ہے خواہشوں کا نگر دیکھتے چلیں

پھر اہتمام معرکۂ مرگ و زیست ہے
تیغوں سے کھیلتے ہوئے سر دیکھتے چلیں

ساحل پہ سہمے سہمے زمانہ گزر گیا
دریا کا آج زیر و زبر دیکھتے چلیں

جن قاتلوں کا شہر میں چرچا ہے ان دنوں
جی چاہتا ہے ان کا ہنر دیکھتے چلیں

فرصت کہاں ہے اتنی کہ تفصیل سے پڑھیں
اخباری سرخیوں میں خبر دیکھتے چلیں