EN हिंदी
اندھیری شب میں چراغ رہ وفا دینا | شیح شیری
andheri shab mein charagh-e-rah-e-wafa dena

غزل

اندھیری شب میں چراغ رہ وفا دینا

اوشا بھدوریہ

;

اندھیری شب میں چراغ رہ وفا دینا
تعلقات کو نزدیک سے صدا دینا

جہاں کھڑی ہوں وہاں سے پلٹ نہیں سکتی
ابھی نہ مجھ کو محبت کا واسطہ دینا

میں بے بسی کا سلیقہ نبھاؤں گی کب تک
بڑھے جو پیاس چراغ صدا بجھا دینا

بجھے بجھے سبھی منظر ہیں آشنائی کے
مرے لبوں کو کوئی حرف مدعا دینا

امید ہاتھ سے دامن اگر چھڑانے لگے
تو پھر مجھے بھی مرے شہر کا پتہ دینا

بھٹک نہ جاؤں کہیں غم کی رہ گزاروں میں
نگاہ و دل کو اجالوں کا راستہ دینا

رفاقتوں کو جو تنہائیاں ستانے لگیں
اداسیوں کو کوئی رنگ آشنا دینا

اگر تمہیں بھی کوئی اختیار مل جائے
تو پھر تڑپتے دلوں کو کہیں ملا دینا

لکھے ہیں اشکوں سے لمحات زندگی اوشاؔ
انہیں کتاب محبت میں تم سجا دینا