EN हिंदी
اندھیری شب ہے کہاں روٹھ کر وہ جائے گا | شیح شیری
andheri shab hai kahan ruTh kar wo jaega

غزل

اندھیری شب ہے کہاں روٹھ کر وہ جائے گا

شمیم فاروقی

;

اندھیری شب ہے کہاں روٹھ کر وہ جائے گا
کھلا رہے گا اگر در تو لوٹ آئے گا

جو ہو سکے تو اسے خط ضرور لکھا کر
تجھے وہ میری طرح ورنہ بھول جائے گا

بہت دبیز ہوئی جا رہی ہے گرد ملال
نہ جانے کب یہ دھلے گی وہ کب رلائے گا

لگے ہوئے ہیں نگاہوں کے ہر جگہ پہرے
کہاں متاع سکوں جا کے تو چھپائے گا

اسے بھی چاہیئے اک جسم اور مجھے پانی
اسی لئے وہ سمندر مجھے بلائے گا

ابھی یہ شام کا منظر بہت حسیں ہے شمیمؔ
ڈھلے گی رات تو آ کر یہی ڈرائے گا