اندھیری کھائی سے گویا سفر چٹان کا تھا
جو فاصلہ مرے گھر سے ترے مکان کا تھا
بچھڑ کے تجھ سے وہ عالم مری اڑان کا تھا
کہ میں زمیں کا رہا تھا نہ آسمان کا تھا
تمام عمر مرے دل میں جو کھٹکتا رہا
وہ تیر تیرے کسی طنز کی کمان کا تھا
یقیں کے ٹھوس دلائل جسے نہ کاٹ سکے
تری وفا سے وہ رشتہ مرے گمان کا تھا
تم اپنے عزم کے شل بازوؤں کو مت چومو
مناؤ خیر کہ احسان بادبان کا تھا
غزل
اندھیری کھائی سے گویا سفر چٹان کا تھا
رونق رضا