اندھیرے لاکھ چھا جائیں اجالا کم نہیں ہوتا
چراغ آرزو جل کر کبھی مدھم نہیں ہوتا
مسیحا وہ نہ ہوں تو درد الفت کم نہیں ہوتا
یہ زخم عشق ہے اس زخم کا مرہم نہیں ہوتا
غم جاناں کو جان جاں بنا لے دیکھ دیوانے
غم جاناں سے بڑھ کر اور کوئی غم نہیں ہوتا
طلب بن کر مری ہر دم وہ میرے ساتھ رہتے ہیں
کبھی تنہا مری تنہائی کا عالم نہیں ہوتا
تمہارا آستانہ چھوڑ کر آخر کہاں جاؤں
دیا ہے درد دل تم نے وہ دل سے کم نہیں ہوتا
مرا تن من جلا کر تو نے ظالم خاک کر ڈالا
مگر اے سوز الفت تیرا شعلہ کم نہیں ہوتا
تیرے در سے مجھے اتنی محبت ہو گئی جاناں
ترے در کے علاوہ سر کہیں بھی خم نہیں ہوتا
بدلتی ہی نہیں قسمت محبت کرنے والوں کی
تصور یار کا جب تک فناؔ پیہم نہیں ہوتا
سمجھ لیجے کہ جذب دل میں ہے کوئی کمی باقی
اگر دیدار ان کا عشق میں ہر دم نہیں ہوتا
غزل
اندھیرے لاکھ چھا جائیں اجالا کم نہیں ہوتا
فنا بلند شہری