اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا
وہ اندھا داؤ پر اب کے مری آنکھیں لگا دے گا
مسلسل اجنبی چاپیں اگر گلیوں میں اتریں گی
وہ گھر کی کھڑکیوں پر اور بھی میخیں لگا دے گا
فصیل سنگ کی تعمیر پر جتنا بھی پہرہ ہو
کسی کونے میں کوئی کانچ کی اینٹیں لگا دے گا
میں اس زرخیز موسم میں بھی خالی ہاتھ لوٹا تو
وہ کھیتوں میں قلم کر کے مری باہیں لگا دے گا
وہ پھر کہہ دے گا سورج سے سوا نیزے پہ آنے کو
کٹے پیڑوں پہ پہلے موم کی بیلیں لگا دے گا

غزل
اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا
رفیق سندیلوی