EN हिंदी
اندھیرے دن کی سفارت کو آئے ہیں اب کے | شیح شیری
andhere din ki safarat ko aae hain ab ke

غزل

اندھیرے دن کی سفارت کو آئے ہیں اب کے

سجاد باقر رضوی

;

اندھیرے دن کی سفارت کو آئے ہیں اب کے
ہیں کتنی روشنیاں اشتہار میں شب کے

یہاں تو دیکھ لیے ہم نے حوصلے سب کے
ملے نہ دوست نہ دشمن ہی اپنے منصب کے

بس ایک بات پہ ناکامیوں نے گھیر لیا
زباں سے آئے لبوں تک نہ حرف مطلب کے

جو لب کشادہ تھے وہ مدعی بنے لیکن
جو دل کشادہ تھے وہ کام آ گئے سب کے

اک آہ خشک ہی اپنے نصیب میں نکلی
بہت ہی شور سنے جذبۂ لبالب کے

جدائیاں تو مقدر ہیں لیکن اک غم ہجر
عجیب پھول سے ساتھی بکھر گئے اب کے

بھٹک رہا ہے دیار خرد میں کیوں غم دل
گھروں کو لوٹ چکے سارے با وفا کب کے

زمین سخت میں لفظوں کے گل کھلائے ہیں
غزل کہی تو ہوئے قائل اپنے کرتب کے

ہزار اس نے بھی چکر دیے مگر باقرؔ
رہے نہ ہم بھی کبھی آسمان سے دب کے