اندھیرا ذہن کا سمت سفر جب کھونے لگتا ہے
کسی کا دھیان آتا ہے اجالا ہونے لگتا ہے
وہ جتنی دور ہو اتنا ہی میرا ہونے لگتا ہے
مگر جب پاس آتا ہے تو مجھ سے کھونے لگتا ہے
کسی نے رکھ دیے ممتا بھرے دو ہاتھ کیا سر پر
مرے اندر کوئی بچہ بلک کر رونے لگتا ہے
محبت چار دن کی اور اداسی زندگی بھر کی
یہی سب دیکھتا ہے اور کبیراؔ رونے لگتا ہے
سمجھتے ہی نہیں نادان کے دن کی ہے ملکیت
پرائے کھیتوں پہ اپنوں میں جھگڑا ہونے لگتا ہے
یہ دل بچ کر زمانے بھر سے چلنا چاہے ہے لیکن
جب اپنی راہ چلتا ہے اکیلا ہونے لگتا ہے
غزل
اندھیرا ذہن کا سمت سفر جب کھونے لگتا ہے
وسیم بریلوی