EN हिंदी
اندھیرا مٹتا نہیں ہے مٹانا پڑتا ہے | شیح شیری
andhera miTta nahin hai miTana paDta hai

غزل

اندھیرا مٹتا نہیں ہے مٹانا پڑتا ہے

بھارت بھوشن پنت

;

اندھیرا مٹتا نہیں ہے مٹانا پڑتا ہے
بجھے چراغ کو پھر سے جلانا پڑتا ہے

یہ اور بات ہے گھبرا رہا ہے دل ورنہ
غموں کا بوجھ تو سب کو اٹھانا پڑتا ہے

کبھی کبھی تو ان اشکوں کی آبرو کے لیے
نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانا پڑتا ہے

اب اپنی بات کو کہنا بہت ہی مشکل ہے
ہر ایک بات کو کتنا گھمانا پڑتا ہے

وگرنہ گفتگو کرتی نہیں یہ خاموشی
ہر اک صدا کو ہمیں چپ کرانا پڑتا ہے

اب اپنے پاس تو ہم خود کو بھی نہیں ملتے
ہمیں بھی خود سے بہت دور جانا پڑتا ہے

اک ایسا وقت بھی آتا ہے زندگی میں کبھی
جب اپنے سائے سے پیچھا چھڑانا پڑتا ہے

بس ایک جھوٹ کبھی آئنے سے بولا تھا
اب اپنے آپ سے چہرہ چھپانا پڑتا ہے

ہمارے حال پہ اب چھوڑ دے ہمیں دنیا
یہ بار بار ہمیں کیوں بتانا پڑتا ہے