اندیشوں کے شہر میں رہنا تیری میری عادت ہے
محرومی کے صدمے سہنا تیری میری عادت ہے
ارمانوں کی نازک مالائیں پہنانا شاموں کو
یاد پون کے ساتھ ہی بہنا تیری میری عادت ہے
خوب سلگتے جانا برفیلے لمحوں کے سایوں میں
دکھ کا ایک بھی لفظ نہ کہنا تیری میری عادت ہے
خوابوں سے بہلانا دل کو ہو جانا بے حد مسرور
لوگوں کی تعبیریں سہنا تیری میری عادت ہے
صبح ارادے دن تدبیریں شام خلش اور شب تشویش
ہر حالت میں زندہ رہنا تیری میری عادت ہے
قرب قیصرؔ بے بس ہونا دوری کا سہہ لینا روگ
جینے کی روداد نہ کہنا تیری میری عادت ہے

غزل
اندیشوں کے شہر میں رہنا تیری میری عادت ہے
قیصر قلندر