اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں
یا پھر آؤ مل کر ٹوٹیں اور کھنڈر ہو جائیں
ایک نام پڑھیں یوں دونوں اور دعا یوں مانگیں
یا سجدے سے سر نہ اٹھیں یا لفظ اثر ہو جائیں
خیر اور شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں
بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جائیں
ہم ازلی آوارہ جن کا گھر ہی نہیں ہے کوئی
لیکن جن رستوں سے گزریں رستے گھر ہو جائیں
ایک گنہ جو فانی کر کے چھوڑ گیا دھرتی پر
وہی گنہ دوبارہ کر لیں اور امر ہو جائیں
صوفی سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں
خود ہی اپنا رستہ منزل اور سفر ہو جائیں
رزق کی تنگی عشق کا روگ اور لوگ منافق سارے
آؤ ایسے شہر سے حیدرؔ شہر بدر ہو جائیں
غزل
اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں
حیدر قریشی