انداز ستم ان کا نہایت ہی الگ ہے
گزری ہے جو دل پر وہ قیامت ہی الگ ہے
لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اڑا کر
ٹوٹے ہوئے پتوں کی حکایت ہی الگ ہے
پردیس میں رہ کر کوئی کیا پانو جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے
جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اتنا ہے خمیدہ
پھل دار درختوں کی طبیعت ہی الگ ہے
باہر سے تو لگتا ہے کہ شاداب ہے گلشن
اندر سے ہر اک پیڑ کی حالت ہی الگ ہے
ہر ایک غزل تجھ سے ہی منسوب ہے میری
انداز مرا تیری بدولت ہی الگ ہے
کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغبؔ
اس دور میں مفہوم شرافت ہی الگ ہے

غزل
انداز ستم ان کا نہایت ہی الگ ہے
افتخار راغب