انا رہی نہ مری مطلق العنانی کی
مرے وجود پہ اک دل نے حکمرانی کی
کرم کیا کہ بکھرنے دیا نہ اس نے مجھے
مرے جنوں کی حفاظت کی مہربانی کی
پہاڑ کاٹنا اک مشغلہ تھا بچپن سے
کڑے دنوں میں بھی تیشے سی نوجوانی کی
بدن کہ اڑنے کو پر تولتا پرندہ سا
کسی کمان سی چڑھتی ندی جوانی کی
کمالؔ میں نے تو در سے دیے اٹھائے نہیں
اٹھائی اس نے ہی دیوار بد گمانی کی
غزل
انا رہی نہ مری مطلق العنانی کی
عبد اللہ کمال