EN हिंदी
انا کو خود پر سوار میں نے نہیں کیا تھا | شیح شیری
ana ko KHud par sawar maine nahin kya tha

غزل

انا کو خود پر سوار میں نے نہیں کیا تھا

رفیق سندیلوی

;

انا کو خود پر سوار میں نے نہیں کیا تھا
تمہارے پیچھے سے وار میں نے نہیں کیا تھا

وہ خود گرا تھا لہو فروشی کی پستیوں میں
اسے نحیف و نزار میں نے نہیں کیا تھا

پکے ہوئے پھل ہی توڑے تھے میں نے ٹہنیوں سے
شجر کو بے برگ و بار میں نے نہیں کیا تھا

نشانہ باندھا تھا آشیانوں کی سمت لیکن
کوئی پرندہ شکار میں نے نہیں کیا تھا

کچھ اس قدر تھے حواس گم سم کہ وقت ہجرت
بلکتے بچوں کو پیار میں نے نہیں کیا تھا

مرے مسائل تو خودبخود ہی سلجھ گئے تھے
کہیں بھی سوچ و بچار میں نے نہیں کیا تھا