امیروں کے برے اطوار کو جو ٹھیک سمجھے ہے
مری حق بات کو وہ قابل تشکیک سمجھے ہے
بہت مشکل ہے جو اس کی غریبی دور ہو جائے
عجب خوددار ہے امداد کو بھی بھیک سمجھے ہے
مرے بارے میں اس کے کان بھرتا ہے کوئی شاید
بیاں توصیف کرتا ہوں تو وہ تضحیک سمجھے ہے
ترے خط تیری تصویریں شکستہ دل کے کچھ ٹکڑے
ترا دیوانہ ان سب کو تری تملیک سمجھے ہے
میں اس کے ہر گماں کا پاس اکثر رکھا کرتا ہوں
مرا دل اپنے دل کے وہ بہت نزدیک سمجھے ہے
چلے ہے اس طرح جیسے چلے تلوار پر کوئی
وہ میری رہ گزر کو جانے کیوں باریک سمجھے ہے
سیاست کے اندھیروں نے اجالے سب نگل ڈالے
غریب انسان دن کو بھی شب تاریک سمجھے ہے
غزل
امیروں کے برے اطوار کو جو ٹھیک سمجھے ہے
ضمیر اترولوی