امیر شہر سے مل کر سزائیں ملتی ہیں
اس ہسپتال میں نقلی دوائیں ملتی ہیں
ہم ایک پارٹی مل کر چلو بناتے ہیں
کہ تیری میری بہت سی خطائیں ملتی ہیں
پرانی دلی میں دل کا لگانا ٹھیک نہیں
نہ دھوپ اور نہ تازہ ہوائیں ملتی ہیں
اب ان کا نام و نسب دوسرے بتاتے ہیں
عروج ملتے ہی کیا کیا ادائیں ملتی ہیں
کسی غریب کی امداد کر کے دیکھ کبھی
ذرا سے کام کی کتنی دعائیں ملتی ہیں
غزل
امیر شہر سے مل کر سزائیں ملتی ہیں
حسیب سوز