عمیقؔ چھیڑ غزل غم کی انتہا کب ہے
یہ مالوے کی جنوں خیز چودھویں شب ہے
مجھے شکایت تلخیٔ زہر غم کب ہے
مرے لبوں پہ ابھی کیف شکر لب ہے
لکیر کھنچتی چلی جا رہی ہے تابہ جگر
فروغ مے ہے کہ مشق جراحت شب ہے
یہ محویت ہے کہ رعب جمال ہے طاری
خلاف رسم جنوں دل بہت مؤدب ہے
کبھی حرم میں ہے کافر تو دیر میں مومن
نہ جانے کیا دل دیوانہ تیرا مذہب ہے
بہت محال تھا ورنہ کہ دل فریب میں آئے
کسی کے غم سے غم کائنات کی چھب ہے
چمن میں پھول کھلاتی پھرے بہار تو کیا
کسی کے بند قبا ٹوٹنے لگیں تب ہے
غزل
عمیقؔ چھیڑ غزل غم کی انتہا کب ہے
عمیق حنفی