عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کہ عشق باہم لگا چھڑایا
الٰہی چھٹ جائیں اس کی نبضیں ملاپ جس نے مرا چھڑایا
نہ بیٹھے آرام سے وہ گاہے اٹھائے نت دکھ پہ دکھ خدایا
کہ جس نے ناحق اٹھا کے بہتان اپنا واں بیٹھنا چھڑایا
الٰہی محروم رکھیو اس کو مدام لذات دوجہاں سے
اسیر دام فراق کر مجھ کو جس نے میرا مزا چھڑایا
نہ دوستی کا اسے ملے پھل نہ کوئی مربوط ہووے اس سے
کہ جس نے کر دشمنی خدایا جو ربط آپس میں تھا چھڑایا
عروس گیتی سمجھ کے اس کو ذلیل ہرگز نہ منہ لگاوے
الٰہی عقد محبت اس سے یہ جس نے میرا بندھا چھڑایا
چھٹے گریبان اس کا گاہے نہ پنجۂ رنج سے خدایا
کہ دامن وصل ہاتھ اپنے سے جس نے اس شوخ کا چھڑایا
الٰہی زندان غم سے پاوے نہ جیتے جی وہ کبھی رہائی
کہ جس کے بہکائے سے اب اس نے دل اپنا ہم سے پھنسا چھڑایا
لہو جو مشتاق وصل کا تھا چھٹا نہ قدموں سے اس کے ہرگز
اگرچہ دھو دھو کے اس نے کتنا بہ شکل رنگ حنا چھڑایا
کہے ہے جرأتؔ یہی بہ تکرار درد ہجراں سے ہاتھ مل مل
الٰہی چھٹ جائیں اس کی نبضیں ملاپ جس نے مرا چھڑایا
غزل
عمل کچھ ایسا کیا عدو نے کہ عشق باہم لگا چھڑایا
جرأت قلندر بخش