EN हिंदी
الطاف و کرم غیظ و غضب کچھ بھی نہیں ہے | شیح شیری
altaf-o-karam ghaiz-o-ghazab kuchh bhi nahin hai

غزل

الطاف و کرم غیظ و غضب کچھ بھی نہیں ہے

محبوب راہی

;

الطاف و کرم غیظ و غضب کچھ بھی نہیں ہے
تھا پہلے بہت کچھ مگر اب کچھ بھی نہیں ہے

برسات ہو سورج سے سمندر سے اگے آگ
ممکن ہے ہر اک بات عجب کچھ بھی نہیں ہے

دل ہے کہ حویلی کوئی سنسان سی جس میں
خواہش ہے نہ حسرت نہ طلب کچھ بھی نہیں ہے

اب زیست بھی اک لمحۂ ساکت ہے کہ جس میں
ہنگامۂ دن گرمیٔ شب کچھ بھی نہیں ہے

سب قوت بازو کے کرشمات ہیں راہیؔ
کیا چیز ہے یہ نام و نسب کچھ بھی نہیں ہے