الفاظ نرم ہو گئے لہجے بدل گئے
لگتا ہے ظالموں کے ارادے بدل گئے
یہ فائدہ ضرور ہوا احتجاج سے
جو ڈھو رہے تھے ہم کو وہ کاندھے بدل گئے
اب خوشبوؤں کے نام پتے ڈھونڈتے پھرو
محفل میں لڑکیوں کے دوپٹے بدل گئے
یہ سرکشی کہاں ہے ہمارے خمیر میں
لگتا ہے اسپتال میں بچے بدل گئے
کچھ لوگ ہیں جو جھیل رہے ہیں مصیبتیں
کچھ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے بدل گئے
مجھ کو مری پسند کا سامع تو مل گیا
لیکن غزل کے سارے حوالے بدل گئے
غزل
الفاظ نرم ہو گئے لہجے بدل گئے
شکیل جمالی