EN हिंदी
الم مآل اگر ہے تو پھر خوشی کیا ہے | شیح شیری
alam maal agar hai to phir KHushi kya hai

غزل

الم مآل اگر ہے تو پھر خوشی کیا ہے

رشی پٹیالوی

;

الم مآل اگر ہے تو پھر خوشی کیا ہے
کوئی سزا ہے گناہوں کی زندگی کیا ہے

ہمیں وہ یوں بھی بالآخر مٹائیں گے یوں بھی
ستم کے بعد کرم بھی تو ہے ابھی کیا ہے

نظام بزم دو عالم ہے انتشار آگیں
نگاہ دوست میں آثار برہمی کیا ہے

کسی مقام پہ بھی مطمئن نہیں نظریں
زیاں ہے ذوق تجسس کا آگہی کیا ہے

نماز عشق جو شامل نہیں عبادت میں
فریب کفر سراسر ہے بندگی کیا ہے

بدل گئی نہ اگر باغباں کی نیت ہی
چمن کا رنگ بدلنے میں دیر ہی کیا ہے

گزر گئی ہے شب غم یقیں نہیں آتا
سحر نمود نہیں ہے تو روشنی کیا ہے

متاع حسن دو عالم سے بھی سوا کہئے
قمر جمال ہے تصویر آپ کی کیا ہے

جو سحر حسن کی تاثیر کا نہیں قائل
تری نظر سے وہ پوچھے کہ ساحری کیا ہے

کسی کا حسن کہاں اپنا ذوق دید کہاں
کسی کے جلووں سے نظروں کی ہمسری کیا ہے

قدم قدم پہ دیا ہے فریب رہبر نے
جو رہبری اسے کہئے تو رہزنی کیا ہے

ہمارے دل پہ اچٹتی نظر ہی ڈال کہیں
تجھے خبر تو چلے سوز عاشقی کیا ہے

ہمیں نے دل میں جگہ دی ہمیں پہ مشق ستم
یہ دوستی ہے تو اے دوست دشمنی کیا ہے

بہار آئی ہے اب آپ بھی چلے آئیں
بہار کو بھی خبر ہو شگفتگی کیا ہے

وفا کا نام بڑا ہو تو ہو رشیؔ ورنہ
جفائے دوست میں بھی لطف کی کمی کیا ہے