الگ ہیں ہم کہ جدا اپنی رہگزر میں ہیں
وگرنہ لوگ تو سارے اسی سفر میں ہیں
ہماری جست نے معزول کر دیا ہم کو
ہم اپنی وسعتوں میں اپنے بام و در میں ہیں
یہاں سے ان کے گزرنے کا ایک موسم ہے
یہ لوگ رہتے مگر کون سے نگر میں ہیں
جو در بدر ہو وہ کیسے سنبھال سکتا ہے
تری امانتیں جتنی ہیں میرے گھر میں ہیں
عجیب طرح کا رشتہ ہے پانیوں سے ملالؔ
جدا جدا سہی سب ایک ہی بھنور میں ہیں

غزل
الگ ہیں ہم کہ جدا اپنی رہگزر میں ہیں
صغیر ملال