علاوہ اک چبھن کے کیا ہے خود سے رابطہ میرا
بکھر جاتا ہے مجھ میں ٹوٹ کے ہر آئینہ میرا
الجھ کے مجھ میں اپنے آپ کو سلجھا رہا ہے جو
نہ جانے ختم کر بیٹھے کہاں پر سلسلہ میرا
مجھے چکھتے ہی کھو بیٹھا وہ جنت اپنے خوابوں کی
بہت ملتا ہوا تھا زندگی سے ذائقہ میرا
میں کل اور آج میں حائل کوئی نادیدہ وقفہ ہوں
مرے خوابوں سے ناپا جا رہا ہے فاصلہ میرا
وہ کیسا شہر تھا مانوس بھی تھا اجنبی بھی تھا
کہ جس کی اک گلی میں کھو گیا مجھ سے پتا میرا
پلٹ آتا ہے ہر دن گھر کی جانب شام ڈھلتے ہی
کسی بے نام بستی سے گزر کے راستا میرا
یہ میں ہوں یا مرا سایہ مرا سایہ ہے یا میں ہوں
عجب سی دھند میں لپٹا ہوا ہے حافظہ میرا
ہنسی آئی تھی اپنی بے بسی پر ایک دن مجھ کو
ابھی تک گونجتا ہے میرے اندر قہقہہ میرا
غزل
علاوہ اک چبھن کے کیا ہے خود سے رابطہ میرا
عزیز بانو داراب وفا