EN हिंदी
اکثر بیٹھے تنہائی کی زلفیں ہم سلجھاتے ہیں | شیح شیری
aksar baiThe tanhai ki zulfen hum suljhate hain

غزل

اکثر بیٹھے تنہائی کی زلفیں ہم سلجھاتے ہیں

سجاد باقر رضوی

;

اکثر بیٹھے تنہائی کی زلفیں ہم سلجھاتے ہیں
خود سے ایک کہانی کہہ کر پہروں جی بہلاتے ہیں

دل میں اک ویرانہ لے کر گلشن گلشن جاتے ہیں
آس لگا کر ہم پھولوں سے کیا کیا خاک اڑاتے ہیں

میٹھی میٹھی ایک کسک ہے بھینی بھینی ایک مہک
دل میں چھالے پھوٹ رہے ہیں پھول سے کھلتے جاتے ہیں

بادل گویا دل والے ہیں ٹھیس لگی اور پھوٹ بہے
طوفاں بھی بن جاتے ہیں یہ موتی بھی برساتے ہیں

ہم بھی ہیں اس دیس کے باسی لیکن ہم کو پوچھے کون
وہ بھی ہیں جو تیری گلی کے نام سے رتبہ پاتے ہیں

کانٹے تو پھر کانٹے ٹھہرے کس کو ہوں گے ان سے گلے
لیکن یہ معصوم شگوفے کیا کیا گل یہ کھلاتے ہیں

الجھے الجھے سے کچھ فقرے کچھ بے ربطی لفظوں کی
کھل کر بات کہاں کرتے ہیں باقرؔ بات بناتے ہیں