عکس زخموں کا جبیں پر نہیں آنے دیتا
میں خراش اپنے یقیں پر نہیں آنے دیتا
اس لیے میں نے خطا کی تھی کہ دنیا دیکھوں
ورنہ وہ مجھ کو زمیں پر نہیں آنے دیتا
عمر بھر سینچتے رہنے کی سزا پائی ہے
پیڑ اب چھاؤں ہمیں پر نہیں آنے دیتا
جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے
کوئی لکنت بھی کہیں پر نہیں آنے دیتا
اپنے اس عہد کا انصاف ہے طاقت کا غلام
آنچ بھی کرسی نشیں پر نہیں آنے دیتا
چاہتا ہوں کہ اسے پوجنا چھوڑوں لیکن
کفر جو خوں میں ہے دیں پر نہیں آنے دیتا
غزل
عکس زخموں کا جبیں پر نہیں آنے دیتا
ظفر صہبائی