عکس کیا دیدۂ تر میں دیکھا
ہم نے دریا کو بھنور میں دیکھا
سر منزل کوئی منزل نہ ملی
اک سفر اور سفر میں دیکھا
نظر آیا کبھی بازار میں گھر
کبھی رستہ کوئی گھر میں دیکھا
سرخ رو جنگ سے لوٹ آیا تھا
خوں میں لت پت جسے گھر میں دیکھا
جانے کب آ کے یہاں بیٹھے تھے
اپنا سایا بھی شجر میں دیکھا
اب بھی چپکا ہے مری آنکھوں میں
جو دھواں شمع سحر میں دیکھا
آگ کس دیس لگی ہے اب کے
پھر دھواں اپنے نگر میں دیکھا
ایک ہی جست میں ہم نے ہمدمؔ
فاصلہ دشت سے در میں دیکھا
غزل
عکس کیا دیدۂ تر میں دیکھا
ہمدم کاشمیری