EN हिंदी
عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے | شیح شیری
aks ki kahani ka iqtibas hum hi the

غزل

عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے

غالب عرفان

;

عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے
آئینے کے باہر بھی آس پاس ہم ہی تھے

جب شعور انسانی رابطے کا پیاسا تھا
حرف و صوت علم و فن کی اساس ہم ہی تھے

فاصلوں نے لمحوں کو منتشر کیا تو پھر
اعتبار ہستی کی ایک آس ہم ہی تھے

مقتدر محبت کی شکوہ سنج محفل میں
خامشی کو اپنائے پر سپاس ہم ہی تھے

خواب کو حقیقت کا روپ کوئی کیا دیتا
منعکس تصور کا انعکاس ہم ہی تھے